چلتے چلتے راہ میں ایسا بھی کر جاتے ہیں ہم

چلتے چلتے راہ میں ایسا بھی کر جاتے ہیں ہم
منزل مقصود سے آگے گزر جاتے ہیں ہم


یکجا کر پاتا ہے وہ ہم کو کئی گھنٹوں کے بعد
لمس سے اس کے جو پل بھر میں بکھر جاتے ہیں ہم


ایک جملہ ہی قضا کا اپنی باعث بن گیا
لب پہ بس زیر و زبر آتے ہی مر جاتے ہیں ہم


خوب صورت اس لیے لگتی ہے تصویر غزل
مختلف لہجوں سے اس میں رنگ بھر جاتے ہیں ہم


دل صدا دیتا ہے جب آوارگی آوارگی
جا کے پھر اس کے محلے میں ٹھہر جاتے ہیں ہم


رہ گزر سے وہ مٹا دیتا ہے قدموں کے نشاں
منزلوں پہ نقش پا بن کر ابھر جاتے ہیں ہم


ایک چارہ گر تو ایسا بھی ہے دلبرؔ شہر میں
جس کے ہاتھوں کی دوا کھاتے ہی مر جاتے ہیں ہم