دنیا پہ میرے فن کا اثر بعد میں ہوا
دنیا پہ میرے فن کا اثر بعد میں ہوا
پہلے تو عیب تھا یہ ہنر بعد میں ہوا
برسوں سراب بن کے مری آنکھ میں رہا
اک شخص وہ جو دیدۂ تر بعد میں ہوا
صحبت میں میری تھا تو کشادہ تھی اس کی فکر
وہ تنگ ذہن تنگ نظر بعد میں ہوا
اک شعر رات ذہن کے کاغذ پہ نیند میں
ہونے سے رہ گیا تھا مگر بعد میں ہوا
کوچہ سے اس نے مجھ کو نکالا تو شور کیوں
آدم بھی تو بہشت بدر بعد میں ہوا
کہتے ہیں لوگ اس کی تو فطرت تھی دھوپ کی
وہ شخص چلتا پھرتا شجر بعد میں ہوا
ہم خانقاہ عشق کے پہلے مرید ہیں
مجنوں کا تو ادھر سے گزر بعد میں ہوا
دلبرؔ نے بار بار اجاڑا ہے لوٹ کر
آباد اپنے دل کا نگر بعد میں ہوا