بدن پہ اپنے سراپا عذاب پہنے ہوئے
بدن پہ اپنے سراپا عذاب پہنے ہوئے
پھر آج نکلا ہے صحرا سراب پہنے ہوئے
ہر ایک شخص کی نظروں کو کر گیا عریاں
یہ کون گزرا یہاں سے نقاب پہنے ہوئے
ہمارے جسم کی دیوار گر نہ جائے کہیں
تمہارے ہجر کا موسم ہے آب پہنے ہوئے
چمن سے خوشبو نکل کر ہوا سے پوچھتی ہے
کسی کو دیکھا ہے تم نے گلاب پہنے ہوئے
ہمارے تکیے پہ کل نیند سر پٹکتی رہی
ہماری آنکھ تھی ایک ایسا خواب پہنے ہوئے
کسی نے ہندوی تو ریختہ کسی نے کہا
زبان اردو ہے کیا کیا خطاب پہنے ہوئے
کوئی بھی صنف سخن اس طرح نہیں دلبرؔ
غزل ہی تنہا ہے ہر اک نصاب پہنے ہوئے