محبت دکھوں کی اک دوا ہے

محبت دکھوں کی اک دوا ہے
وگرنہ زندگی حرف دعا ہے


اندھیرے کا تناسب بڑھ نہ جائے
کوئی سورج زمیں پہ آ گرا ہے


ہمارا حال ہے اظہر من الشمس
جو سب کا حال ہے کس سے چھپا ہے


در کعبہ پہ بھی پہرے بٹھاؤ
بتوں کی واپسی کا مرحلہ ہے


شکستہ پا سفر کی سمت کھو کر
مسافر راہ میں تنہا کھڑا ہے


در آئے جس کا جی چاہے در آئے
سدا سے دل کا دروازہ کھلا ہے


مسلسل آب جو میں رہتے رہتے
کنول کا پھول کچھ اکتا گیا ہے


جہاں صدیوں سے ہے پیاسوں کا میلہ
شمیمؔ اس بزم کا شہرہ بڑا ہے