غم کمائی سے چل رہا ہے دل

غم کمائی سے چل رہا ہے دل
کس ڈھٹائی سے چل رہا ہے دل


آپ آئے تو مجھ کو ایسا لگا
خوش نمائی سے چل رہا ہے دل


ورنہ اندر سے کچھ نہیں باقی
خود نمائی سے چل رہا ہے دل


تیرا ملنا شفا کا باعث ہے
اس دوائی سے چل رہا ہے دل


عشق میں ہجر کا سہارا ہے
پیر بھائی سے چل رہا ہے دل


ہجر نے داغ دھوئے آنکھوں کے
اس صفائی سے چل رہا ہے دل


غم نے کھولے قفس کہ در مجھ پہ
اس رہائی سے چل رہا ہے دل