مری نگاہ میں ہے خاک سیم و زر کا فسوں

مری نگاہ میں ہے خاک سیم و زر کا فسوں
ثبوت‌ معجزۂ رفتگان عالم ہوں


دیا ہے مجھ کو مگر بے سرور ہنگامہ
ملا ہے مجھ کو مگر وقف اضطراب سکوں


نہ چاند میں ہے چمک اپنی اور نہ شبنم میں
کروں تو کس کا زمانے میں اعتبار کروں


جو دل میں بات ہے الفاظ میں نہیں آتی
سو ایک بات ہے دل کی لگی کہوں نہ کہوں


سزا ہے میری رہو اس دیار میں کہ جہاں
گراں ہے آب مصفا مگر ہے ارزاں خوں


سوال عقل وہی ہے جواب جہل وہی
ہزار بار کروں دس ہزار بار سنوں


خفا ہے رنگ گل و موجۂ صبا مجھ سے
کہ باندھتا ہوں دل بے قرار کا مضموں


مجھے تو اپنے پہ اک لمحہ اعتبار نہیں
نگار دہر تجھے گرچہ با وفا سمجھوں


ہزار راستے پنہاں ہیں ریگ صحرا میں
جو دم میں دم ہو تو اس دشت کی ہوا دیکھوں


کھلا ہے آل محمدؐ کے فیض سے مجھ پر
کہ آدمی کو بھی ہے اختیار کن فیکوں


بلند بعد شہادت بھی ہے یہ نوک سناں
سر امام کسی حال بھی نہیں ہے نگوں