مرے اشکوں کی طغیانی سے پہلے

مرے اشکوں کی طغیانی سے پہلے
رواں کشتی نہ تھی پانی سے پہلے


ترستی تھیں نگاہیں روشنی کو
چراغ بزم انسانی سے پہلے


تڑپتا تھا سراپا درد بن کر
چمن میری نگہبانی سے پہلے


کسے حاصل تھی خوشبو عافیت کی
ہماری بوئے سلطانی سے پہلے


لہو انسانیت کے بہہ رہے تھے
محبت کی جہاں بانی سے پہلے


نہ سر چشمہ تھا کوئی زندگی کا
مرے دریا کی طغیانی سے پہلے


سحر بے نور تھی دنیائے دل کی
مرے سورج کی تابانی سے پہلے


زلیخائے غزل تھی خوب لیکن
ادب کے یوسف ثانی سے پہلے


عزیزؔ اس پر ہے رب کی خاص رحمت
جو دل جھکتا ہے پیشانی سے پہلے