مرے اندر جو اندیشہ نہیں ہے
مرے اندر جو اندیشہ نہیں ہے
تو کیا میرا کوئی اپنا نہیں ہے
کوئی پتا کہیں پردہ نہیں ہے
تو کیا اب دشت میں دریا نہیں ہے
تو کیا اب کچھ بھی در پردہ نہیں ہے
یہ جنگل ہے تو کیوں خطرہ نہیں ہے
کہاں جاتی ہیں بارش کی دعائیں
شجر پر ایک بھی پتہ نہیں ہے
درختوں پر سبھی پھل ہیں سلامت
پرندہ کیوں کوئی ٹھہرا نہیں ہے
کھلا ہے پھول ہر گملے میں لیکن
کوئی چہرہ تر و تازہ نہیں ہے
سمجھنا ہے تو دیواروں سے سمجھو
ہمارے شہر میں کیا کیا نہیں ہے