مرا مضموں سوار توسن طبع رواں ہو کر
مرا مضموں سوار توسن طبع رواں ہو کر
زمین شعر پر پھرتا ہے گویا آسماں ہو کر
کھٹک جاتے ہیں چشم برق میں میرا نشاں ہو کر
غضب ڈھاتے ہیں یعنی چند تنکے آشیاں ہو کر
سن اے جوش جنوں تقلید مجنوں کی نہیں اچھی
مبادا ہم بھی رہ جائیں کسی دن داستاں ہو کر
دما دم شعبدے ہم کو دکھاتا ہے کوئی جلوہ
کہیں شیخ حرم ہو کر کہیں پیر مغاں ہو کر
ان آنکھوں سے بہار باغ دنیا دینے والو
یہ آنکھیں رنگ لائیں گی کسی دن خوں فشاں ہو کر
اجی کیا شمع کیا پروانہ دونوں جل بجھے آخر
کوئی آتش فشاں ہو کر کوئی آتش بجاں ہو کر
خدا محفوظ رکھے یہ حسیں دل لے ہی لیتے ہیں
کسی پر مہرباں ہو کر کسی سے سرگراں ہو کر
نہ پایا اور کچھ بھی جز خدا کعبے میں اے اخترؔ
بہت نادم ہوئے ہم بت کدے سے بد گماں ہو کر