ملا نہ لفظ مصیبت کو سرگرانی سے

ملا نہ لفظ مصیبت کو سرگرانی سے
معانی کھلنے نہیں میرے ترجمانی سے


ہماری نبض میں جنبش ہے پانچ ہجر کے بعد
ہمارا عشق پرانا ہے رائیگانی سے


سو عمر بھر میں کسی کو سمجھ نہیں آیا
جدا رکھا گیا مجھ کو میرے معانی سے


کبھی سراب سے اٹھتا ہوا ہی مل جاؤں
کبھی کبھی تو ہے ممکن ملوں نہ پانی سے


لہٰذا مرکزی کردار بن گیا ہوں میں
مجھے نکال نہ پاؤ گے اب کہانی سے


با احتیاط اسے سوچے ہو گیا عرصہ
وہ میرے دھیان میں آیا ہے بے دھیانی سے


تجھے غزل میں پرونا ہے شغل غالب کا
کہ تیرا نقش بنے گا تو صرف معنی سے