میرے لب پر ہنسی جو آئی ہے
میرے لب پر ہنسی جو آئی ہے
وہ بھی اپنی نہیں پرائی ہے
کیا بھروسہ کرے وہ پھولوں پر
جس نے خوشبو سے چوٹ کھائی ہے
مان لی ہار اس نے بادل سے
یہ تو سورج کی جگ ہنسائی ہے
بند ہیں ساری کھڑکیاں گھر کی
اے ہوا تو کدھر سے آئی ہے
بجلیوں کو سزا نہ دے بادل
آگ تو برف نے لگائی ہے
کیا کسی کو دکھائے منہ طوفاں
مات اس نے دیے سے کھائی ہے
اے زمیں تو نہ کودنا اس میں
چاند سورج کی وہ لڑائی ہے
پیاس سے بات تک نہ کی اس نے
یہ تو دریا کی کج ادائی ہے
اے قمرؔ میری ایک ایک غزل
میرے تخئیل کی کمائی ہے