حرف دریا ہے دل سمندر ہے

حرف دریا ہے دل سمندر ہے
پیاس پھر بھی مرا مقدر ہے


تم کہاں تک مجھے سنبھالو گے
راہ میں ہر قدم پہ ٹھوکر ہے


میرے آنسو کا ایک اک قطرہ
اپنی اپنی جگہ سمندر ہے


پاؤں ہے فرش خاک پر میرا
چشم افکار آسماں پر ہے


دل میں روشن ہے جو چراغ حق
اس کا قد چاند کے برابر ہے


لفظ کی سادگی ہے اس کا لباس
ندرت فن غزل کا زیور ہے


سیکڑوں رند اس میں ڈوب گئے
کتنا گہرا قمرؔ یہ ساغر ہے