چاند جب میری چھت پہ آتا ہے
چاند جب میری چھت پہ آتا ہے
ہر دیے کو گلے لگاتا ہے
جور و ظلم و ستم کی ظلمت میں
صبر کا جگنو جگمگاتا ہے
غم کے سورج کی تیز کرنوں سے
دل کا تالاب سوکھ جاتا ہے
نیند اڑ جاتی ہے سیاست کی
جب قلم انقلاب لاتا ہے
کیا قریب آ گئی مری منزل
کیوں قدم میرا ڈگمگاتا ہے
وہ مرا عکس اعتبار ہے جو
تیری آنکھوں میں جھلملاتا ہے
کون ہر روز درد کا گلدان
اشک کے پھولوں سے سجاتا ہے
کس نے ٹوٹے دلوں کو جوڑ دیا
شہر میں کس کو فن یہ آتا ہے
اپنے دربار میں قمرؔ بادل
روز دریا کو کیوں بلاتا ہے