خودی کے باغ کے پھولوں کی تازگی ہوں میں

خودی کے باغ کے پھولوں کی تازگی ہوں میں
بہار حسن تمدن کی دل کشی ہوں میں


ضمیر ظرف ہوں تہذیب عاجزی ہوں میں
مزاج صبر و تحمل کی سادگی ہوں میں


نہ چاند ہوں نہ ستارہ نہ چاندنی ہوں میں
چراغ عظمت غیرت کی روشنی ہوں میں


سلگتی دھوپ کی خاطر ہوں چھاؤں راحت کی
ادب کی خشک زمیں کے لیے نمی ہوں میں


خلوص والے کو پہچانتا نہیں کوئی
نئی صدی کی نگاہوں میں اجنبی ہوں میں


کسی امیر کا احساں لیا نہ میں نے کبھی
خودی کو ناز ہے جس پر وہ آدمی ہوں میں


امیر شہر سے میرا کوئی لگاؤ نہیں
غریب شہر سے نسبت ہے مفلسی ہوں میں


وفا کے گہرے سمندر سے میرا رشتہ ہے
قمرؔ خلوص کی بہتی ہوئی ندی ہوں میں