میرے الفاظ میں اثر رکھ دے
میرے الفاظ میں اثر رکھ دے
سیپیاں ہیں تو پھر گہر رکھ دے
بے خبر کی کہیں خبر رکھ دے
حاصل زحمت سفر رکھ دے
منزلیں بھر دے آنکھ میں اس کی
اس کے پیروں میں پھر سفر رکھ دے
چند لمحہ کوئی تو سستا لے
راہ میں ایک دو شجر رکھ دے
گر شجر میں ثمر نہیں ممکن
اس میں سایا ہی شاخ بھر رکھ دے
کل کے اخبار میں تو جھوٹی ہی
ایک تو اچھی سی خبر رکھ دے
تو اکیلا ہے بند ہے کمرا
اب تو چہرا اتار کر رکھ دے