موت کے ہاتھوں تو میرا یہ بدن مر جائے گا
موت کے ہاتھوں تو میرا یہ بدن مر جائے گا
میں مگر اس دن مروں گا جب یہ من مر جائے گا
سرنگوں ہیں سولیاں میرے لہو کے سامنے
تم سمجھتے تھے کہ میرا بانکپن مر جائے گا
سرحدی پٹی پہ اس کی لاش پہچانے گا کون
جو وطن کی سر زمیں پر بے وطن مر جائے گا
میری قربانی ضروری ہے اگر زندہ رہا
جان دینے کا سلیقہ اور فن مر جائے گا
چاند ماری کیجیے لیکن گلابوں پر نہیں
آج تو خوشبو مرے گی کل چمن مر جائے گا
دیکھ لیجے گا اناڑی باغباں کے ہاتھ سے
کھرپیوں کے زخم کھا کھا کر چمن مر جائے گا
دور آنکھوں سے نہ جا اب اے سراب زندگی
درد کے صحرا میں آشا کا ہرن مر جائے گا
راج نیتک بنئے گر ڈنڈی یوں ہی مارا کئے
ہر عدالت میں ترازو کا چلن مر جائے گا
دیجئے تہذیب کو تازہ ہوا ورنہ حبیب
میرؔ کے اشعار میراؔ کا بھجن مر جائے گا
برق سے پنچھیؔ نشیمن کو بچانے کے لئے
ایک ٹھوکر مار دوں گا تو گگن مر جائے گا