موسم غم گزر نہ جائے کہیں

موسم غم گزر نہ جائے کہیں
شب میں سورج نکل نہ آئے کہیں


اپنی تنہائیاں چھپانے کو
بت بنائے صنم گرائے کہیں


وہ سراپا ہے خواب خوشبو کا
جھونکا جھونکا بکھر نہ جائے کہیں


ڈر یہ کیسا ہوا سفر میں مجھے
راستہ ختم ہو نہ جائے کہیں


کیا بتاؤں وہ کیوں پریشاں ہے
مجھ کو ڈھونڈے کہیں چھپائے کہیں


سب اسی دھن میں بھاگے جاتے ہیں
کوئی آگے نکل نہ جائے کہیں


بعد مدت کے تو ملا ہے نظامؔ
ڈر ہے پھر سے بچھڑ نہ جائے کہیں