میں سر دار مسکراتی رہی
میں سر دار مسکراتی رہی
زندگانی سزا بڑھاتی رہی
صبر کو میرے بے حسی جانا
حوصلے اور آزماتی رہی
آبلہ پائی سے ہوا سیراب
پھول صحرا میں میں کھلاتی رہی
دل کی تیرہ شبی مٹانے کو
زخم سینے کے میں جلاتی رہی
خود کا شاید کبھی گزر ہو یہاں
خار رستے سے میں ہٹاتی رہی
میں جو تنہائیوں سے ڈرتی تھی
اک بیاباں میں گھر بناتی رہی