میں کہ اپنے ہی آس پاس نہیں
میں کہ اپنے ہی آس پاس نہیں
سو بھی اب مجھ کو تیری آس نہیں
زندگی کے بنے نہیں امکان
موت کا بھی کوئی قیاس نہیں
قہر پر قہر مجھ پہ ٹوٹے ہیں
کیا ستم ہے کہ میں اداس نہیں
چاہتا ہوں کہ تجھ کو یاد رکھوں
پر یہ چاہت بھی اتنی خاص نہیں
رہ کے دنیا میں دنیا والوں سے
کہتا پھرتا ہوں دنیا راس نہیں
میری خواہش ہے دریا پاس آئے
اور میں کہہ دوں کہ مجھ کو پیاس نہیں