میں کہاں تھی کہاں سے کہاں ہو گئی

میں کہاں تھی کہاں سے کہاں ہو گئی
آخرش یہ ہوا میں دھواں ہو گئی


دل میں جذبہ تھا جو وہ فنا ہو گیا
اک محبت تھی جو داستاں ہو گئی


سارے ارمان میرے دھرے رہ گئے
ساری کوشش مری رائیگاں ہو گئی


مجھ کو دیکھا تو دینے لگی گالیاں
میری تنہائی کیا بد زباں ہو گئی


تجربہ یہ نیا اس سفر میں ہوا
دھوپ میں تپ کے میں سائباں ہو گئی


ایک چہرہ نگاہوں سے گزرا ہی تھا
ایک تصویر دل میں نہاں ہو گئی


راکھ ہوتا گیا رفتہ رفتہ بدن
زندگی سگریٹوں کا دھواں ہو گئی