لباس کے معاملے میں خواتین کا استحصال کیسے ہورہا ہے؟

مجھے آج بھی یاد ہے عمران خان صاحب کی وہ تقریر جس میں انہوں نے اقوام متحدہ کی جرنل اسمبلی میں کہا تھا کہ مغرب میں خواتین لباس کم پہنیں تو مسئلہ نہیں ہوتا لیکن اگر زائد پہن لیں تو ضرور ہوتا ہے۔ مجھے حرف بحرف الفاظ تو نہیں یاد البتہ متن کچھ یوں ہی تھا۔ آج ہم نظر دوڑائیں تو پوری دنیا میں خواتین لباس کی خاطر جدوجہد کرتی نظر آتی ہیں۔  ان کی خود کو پوری طرح ڈھک کر رکھنے کی فطری خواہش انہیں کہاں کہاں امتیازی سلوک سے نہیں گزارتی۔  آپ سوچ رہے ہوں گے شاید  ایسا ہمارے ملک پاکستان میں نہیں ہوتا۔   اگر آپ ایسا سوچ رہے ہیں تو آپ  خوش فہمی کا شکار ہیں۔  آپ کو یہاں کی ورکنگ سپیس میں ایسی خواتین عام مل جائیں گی جو آپ کو کہیں گی کہ وہ تو پردہ کرنا چاہتی ہیں لیکن ایسا نہ کرنا ان کی  نوکری کی مجبوری ہے۔  سوال اٹھتا ہے کہ یہ کیسی نوکری ہے جس کے لیے اسے اپنے بنیادی حق سے محروم ہونا پڑ رہا ہے؟

خیر، اب میں آپ کو اولمپکس کے میدان میں لیے چلتا ہوں۔  چین میں تو آج کل جاری بھی ہیں۔ آپ نے اس میں اکثر ایسے کھیل دیکھیں ہوں گے جن میں  خواتین نے لباس بنام ہی پہنا ہوتا ہے۔ لیکن انہی کھیلوں میں مردوں نے پورا نہ سہی،  کم از کم  خواتین سے بڑھ کر ضرور لباس پہنا ہوتا ہے۔ جمناسٹک اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسا کھیل ہے جس کو مرد تو زیادہ کپڑے پہن کر کھیل سکتے ہیں لیکن خواتین نہیں؟ یہ سوال میں نہیں اٹھا رہا۔ خود  خواتین  کھلاڑی اٹھا رہی ہیں۔ پچھلے سال ٹوکیو میں ہونے والے اولمپکس میں جرمنی کی  جمناسٹک کی خواتین نے یہی سوال اٹھاتے ہوئے پورے کپڑے پہن کر جمناسٹک کھیلی۔ ان کا ساتھ تو ان کے ملک کی فیڈریشن نے دے دیا لیکن جب اسی قسم کا احتجاج نوروے کی بیچ ہینڈ بال کی ٹیم کی کھلاڑیوں نے کیا تو انہیں جرمانہ کر دیا گیا۔ یہ احتجاج یورپین چیمپین شپ میں ہوا تھا اولمپکس میں نہیں۔   لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس قسم کی چیزیں اولمپکس میں نہیں ہوتیں۔  اولمپکس میں تو خواتین کی پوری پوری تحاریک چلتی ہیں کہ انہیں کپڑے پہننے کی اجازت دی جائے۔

آئیے اب یورپ کا رخ کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ذکر ہے یورپ کی انسانی حقوق کی عدالت کا۔  پچھلے سال اس نے جولائی میں یورپ کے کمپنی مالکان کو اجازت دے  دی کہ وہ خاص حالات میں خواتین کا سکارف لینا بین کر سکتے ہیں۔ لیں بھئی اس عدالت نے تو  یورپی ممالک کے اقدامات پر مہر ثبت کر دی جو وہ حجاب کو بین کرنے کے لیے کر رہے تھے۔ جرمنی کی سابقہ چانسلر 2016 میں پہلے ہی کہہ چکی تھیں کہ حجاب کو بین کر دینا چاہیے۔ اس کی  کئی ریاستوں کے اسکولوں میں تو یہ بین چل بھی رہا تھا۔ فرانس کی تو  بہر حال آپ بات ہی نہ کریں۔ اس قسم کے اقدامات لینے ہوں تو وہ تو ویسے ہی اولین صفوں میں ہوتا ہے۔ حجاب اوڑھے خواتین کو وہ اپنی پارلیمنٹ سے باہر کر چکا ہے،  حجاب میں خواتین کو فٹ بال اس نے نہیں کھیلنے دینا اور اگر کوئی خاتون منہ ڈھانپ کر باہر آ جائے تو بھئی جرمانہ دے۔ سب جگہ خواتین اپنے لباس کے لیے لڑ رہی ہیں۔

بھارت میں آئیے اب۔ بھئی بھارت کا میں کیا ذکر  کروں۔ سب تو آپ دیکھ چکے ہیں مسکان خان والے واقعے میں۔ چین کا رخ کریں اب۔  ویسے تو وہاں کی مصدقہ  اطلاعات کم ہی ہیں ہمارے پاس۔ جو میڈیا میں موجود ہے وس میں بہت سا مغرب کا تعصب ہے۔ لیکن بہرحال اس سے بالکل انکار نہیں کہ مسلمان خواتین اپنے لباس کے لیے بہت استحصال اور ستم سہہ رہی ہیں۔

سب جگہ جب میں خواتین کو لباس کی خاطر لڑتے دیکھتا ہوں تو سوچنے لگتا ہوں کہ آخر کیوں  دنیا پوری ان  کا حق ماننے کو تیار نہیں۔ وہ تنظیمیں جو ان کے حقوق کی جنگ لڑتی ہیں یا دعویٰ کرتی ہیں وہ ان کے اس حق کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھاتیں۔ ان کا رخ  صرف دوسری طرف  کیوں رہتا ہے۔ یعنی خواتین کو اجازت دو کہ وہ اولمپکس کی جمناسٹک یا بیچ ہینڈ بال جیسا لباس  پہن سکیں۔  ان کا یہ یک رخا  رویہ ضرور یہ کہنے پر مجبور کر دیتا ہے: دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔

متعلقہ عنوانات