اعلیٰ تعلیم کے باوجود لڑکیاں صنفی امتیاز کا شکار کیوں ہوتی ہیں؟

”دانت نکالنے کے وقت پر سب سے زیادہ تنازع  ہوتا ہے،لڑکی ہے دانت نکال سکتی ہے؟ طاقت ہے اتنی؟ آر سی ٹی لڑکی کیسے کرے گی؟“

ڈاکٹر رشیدہ جو کہ پیشے سے ڈینٹسٹ ہیں اپنے شعبے میں پیش آنے والے صنفی امتیاز کے بارے میں اپنے ذاتی تجربات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں:

”  دانت نکالنے کے لیے توانائی کی ضرورت نہیں ہوتی اس کے لیے تکنیک کی ضرورت ہوتی ہے یہ جاننے کے لیے کہ طاقت کہاں سے لگائی جائے۔ اس علاج کے لیے علم اور ہاتھ کی مہارت اور توانائی کی ضرورت ہوتی ہے ، مرد ہونا لازمی نہیں۔ مگر پھر بھی اکثر خاتون ڈاکٹر کو مرد ڈاکٹراور مریض کی طرف سے  مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے خواتین ڈاکٹروں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ دانتوں کےمرد ڈاکٹر کے لیے تنخواہ بھی زیادہ دی جاتی ہے، اس لیے خواتین ڈینٹسٹ کے لیے کم سیٹیں ہیں۔ “

حال ہی میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ”شان مصالحہ جات“ کی مہم (#OathForHer) کے سلسلے کے ایک اشتہار نے بحث کا ایک نیا باب کھول دیا ہے۔”ڈاکٹر بہو“ جو کہ ہمارے معاشرے میں دُلہن ڈھونڈنے کی مہم کی اوّلین ترجیح ہے؛ تنقید کی زد میں ہے۔

دنیا کی 49.6 فیصد آبادی خواتین کی ہےاور تقریباً ہر شعبے میں وہ نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔  وہ ممالک جہاں کام کرنے والی خواتین کی تعداد زیادہ ہے تقریباً 70 فیصد گریجویٹس طب کے پیشے سے وابستہ ہیں۔  لیکن بدقسمتی سے بہت سی خواتین ڈاکٹرز تعلیم پوری ہونے کے بعد جاب نہیں کرتیں یا درمیان میں چھوڑ دیتی ہیں۔

پاکستان میں میڈیکل اسکولوں میں طالبات کا تناسب 85-80 فیصد تک ہے، لیکن طبی افرادی قوت میں خواتین ڈاکٹروں کا تناسب 50 فیصد سے کم ہے۔ پاکستان میں اندرونِ سندھ اور دیہی علاقے جہاں خواتین کا مرد ڈاکٹر سے علاج کروانا معیوب سمجھا جاتا ہے؛ خواتین ڈاکٹرز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے صحت کے مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔

ڈاؤ میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر امجد سراج میمن کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ اتنا سنگین ہوتا جارہاہے کہ خاص طور پر رات کی شفٹوں میں خواتین ڈاکٹروں کو تلاش کرنا مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں:

”مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم اپنی لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم  دینے کی بات کرتے ہیں تو معاشرتی ذہنیت تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ دو دہائیوں سے میڈیکل کالجوں میں اوپن میرٹ کی پالیسی نے وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ خواتین کو میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے کی ترغیب دی ہے۔ لیکن ان میں سے ایک قابل ذکر تعداد یا تو اپنی پڑھائی چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہے یا شادی ہوتے ہی اپنا پیشہ چھوڑ دیتی ہے۔‘‘

اس کی ایک اہم وجہ ہمارے معاشرے کی روایتی سوچ ہے کہ بچوں اور گھر کو وقت دینا عورت کا مذہبی اور سماجی فریضہ ہے۔

پاکستان میں اس وقت خواتین کی ایک کثیر تعداد کسی نہ کسی پیشے سے منسلک ہے یا گھر بیٹھے ہوم بزنس کر رہی ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ اپنے گھر اور بچوں کو بھی وقت دیتی ہیں اور مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کی ضروریات پوری کرنے میں آگے آگے ہیں۔  ایسے میں کیا واقعی یہ مان لیا جائے کہ ایک متوسط طبقے کی لڑکی جسے والدین محدود وسائل کے باوجود ڈاکٹریٹ جیسی اعلیٰ تعلیم دلوانے میں مدد کرتے ہیں وہ صرف اس لیے اُسے جاب نہیں کرنے دیتے کہ ساس یا شوہر کو پسند نہیں؟   کیا یہ تصویر کا صرف ایک رُخ نہیں؟  کیا واقعی مسائل روایتی ساس بہو کے جھگڑوں کے ہیں یا خواتین ڈاکٹرز کو دیگر پریشانیوں کا بھی سامنا ہے جن پر ہمارا نظام اور ماتحت افراد بات نہیں کرنا چاہتے؟

جہاں بحث یہ چل پڑی ہے کہ خواتین ڈاکٹرز کو اپنے گھر، سسرال اور شوہر کی طرف سےاپنی جاب جاری رکھنے کے لیے حمایت اور تعاون کی ضرورت ہے وہیں دوسری طرف اُن مسائل پر بھی بات کی جارہی ہے جو اُنہیں بطور خاتون اپنے پیشے میں درپیش ہیں۔  

ڈاکٹر سارہ جو کہ ایک سرکاری ہسپتال میں ہاؤس جاب کر رہی ہیں کہتی ہیں:

خواتین کو ڈیوٹی کے طویل اوقات سے متعلق مسائل کا سامنا ہے۔ادارے کی طرف سے ٹرانسپورٹ مہیا کیا جانا چاہیے تاکہ نائٹ شفٹ اور طویل ڈیوٹی کے بعد گھر پہنچنے میں سہولت رہے۔ خواتین ڈاکٹرز کی ایک بڑی تعداد ایسے خاندانی پس منظر سے تعلق رکھتی ہیں کہ جہاں عورتوں اور لڑکیوں کا رات کے وقت اکیلے سفر کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ ایسے میں اُنہیں اپنے بھائی، شوہر یا والد پر انحصار کرنا پڑتا ہےجو کہ مزید مسائل کو جنم دیتا ہے۔“

کچھ خواتین ڈاکٹرز نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ پیشہ ورانہ زندگی میں خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے تحت حکومتی سطح پر ”ڈے کئیر سینٹر“ ہر سرکاری اور نجی ادارے میں لازمی قرار دیا جانا چاہیے۔ اس سے خواتین ذہنی سکون اور مکمل یکسوئی سے کام کر یں گی اور زیادہ بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔

ڈاکٹر صائمہ جو کہ سکھر بلڈ بینک میں بطور ڈاکٹر فرائض انجام دے رہی ہیں وہ خواتین ڈاکٹرز کو ملنے والی پیشہ ورانہ سہولیات سے اطمینان کا اظہار کرتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے :

”سہولیات اور مناسب تنخواہ یقیناً خواتین ڈاکٹرز کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ لیکن ان کا دارومدار ادارے پر ہے۔ سرکاری سطح پر وسائل اور سرکاری ہسپتالوں میں  خواتین ڈاکٹرزکی کمی کے باعث موجودہ ڈاکٹرز کوخواتین مریضوں کی ایک کثیر تعداد سےروز  نبردآزما ہونا پڑتا ہےجو کہ ایک تھکا دینے والا عمل ہے۔ مگر ساتھ ساتھ انہیں بطور خاتون ڈاکٹر عزت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ سرکاری اداروں میں ڈاکٹرز کو زچگی کے بعد معینہ مدّت تک کی تعطیلات بمعہ تنخواہ فراہم کی جاتی ہیں جو کہ ان کا حق ہے۔ البتہ نجی ادارے اپنے اُصول و ضوابط کے معاملے میں خود مختار ہیں۔“

آج کے دور میں کسی بھی موضوع  کو زیر بحث لاکر بات کرنا تو آسان ہے لیکن اس کے تمام تر پہلو سے آشنا ہوئے بغیر  کسی بھی بات کو ایک ہی رُخ سے دیکھنا سراسر غلط ہوگا ۔آئے دن ہسپتالوں میں ہونے والی ڈاکٹرز کی ہڑتال اور تنخواہ میں اضافے کی درخواست پر اُن کو ذلّت کا نشانہ بنانے اور سڑک پر سرِ عام اُن پر لاٹھیاں برسانے کی خبر اخبارات کی زینت بنتی ہے۔  بطور خاتون اس طرح کا ناروا رویّہ باعثِ شرمندگی ہے اور کسی حد تک خواتین ڈاکٹرز کے جاب جاری نہ رکھنے کا سبب بنتا ہے۔

ڈاکٹر افرا   جو کہ لاہور میں ان دنوں بطور ڈاکٹر اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہیں اپنی نجی زندگی  اور پیشہ ورانہ زندگی  میں توازن قائم رکھنے کی کوشش کی روداد  بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں:

”بیشک آپ ایک ”نوبل پروفیشن“سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ  جذبات و احساسات سے بھرپور ایک  انسان بھی ہیں ۔ نسبتاً دوسرے لوگ جو آٹھ گھنٹے جاب کرتے ہیں وہیں ڈاکٹرز کے  ڈیوٹی کے گھنٹے 12 سے 36 اور کبھی تو 48 گھنٹے تک پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں انھیں جیب میں ڈیوٹی کے دوران چند بادام یا پستے رکھ کر اپنے ہوش و حواس میں رہنے کی صلاح دی جاتی ہے کہ چلو زیادہ نہیں تو بندہ بے ہوش نہ ہو ۔ اگر آپ ایک لیڈی ڈاکٹر ہیں تو پھر  گھر والوں کی طرف بھی جواب دہ ہیں؛ عید ہو بارات  یا موت میت، آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ  دن کہاں نکلا اور اس کے ساتھ اتنا وقت دینے اور ایمانداری سے کام کرنے کے بعد بھی آپ کو اتنی کم تنخواہ دی جاتی ہے کہ جو آپ کے دیے گئے  وقت کے ساتھ انصاف نہیں کرتی۔  یہ بھی آپ کی کاردگی کو متاثر کرنے کی ایک وجہ ثابت ہوتی ہے۔“

ایک مرد اور عورت کے سماجی فرائض اور تقاضے مختلف ہیں۔ مرد ڈاکٹرز بھی یقیناً ان زیادتیوں کا سامنا کر رہے ہیں مگر خواتین ڈاکٹرز جو پہلے ہی اپنے گھر اور بچوں کو اپنی توانائی کا ایک مخصوص  حصہ دے کر جاب پر آتی ہیں اُن کے لیے یہ تمام مسائل ناقابلِ برداشت ہوجاتے ہیں اور بلآخر ذہنی سکون کی جنگ میں وہ اپنے ڈاکٹر بننے کے خواب کو ترک کر نے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔

مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین ڈاکٹروں کا طبی افرادی قوت سے باہر ہونے کا مسئلہ سماجی، تنظیمی اور انفرادی عوامل کے باہمی تعامل کا عکاس ہے، جو سماجی اصولوں سے جڑے ہوئے ہیں۔  عملی مضمرات  کا یہ تقاضہ ہے کہ ہسپتال اور صحت کی تنظیمیں  خواتین اور ان کی ضروریات کو  سمجھ کر  پالیسی سازی  کریں تاکہ  طب کے شعبے میں صنفی فرق کو دور کیا جاسکے۔

متعلقہ عنوانات