مسلم خواتین مودی کے ہندوتوا کا مقابلہ کیسے کررہی ہیں؟

بات حجاب کی ہو یا اس سے آگے بڑھ کر اپنی مسلم شناخت کو قائم رکھنے کی۔ ہندوستان کی مسلمان عورت صدیوں سے اپنے دفاع اور شناخت کی جنگ لڑ رہی ہے۔ کہیں مسلمان مرد اس کا ساتھ دے پاتے ہیں اور کہیں اسے یہ جنگ اکیلے ہی لڑنا پڑتی ہے۔ کہنے کو مسلمان ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت ہیں، لیکن دن بہ دن کمزور ہوتی معیشت، ہندوتوا کے تابڑ توڑ حملوں کو سہتی مسلم معاشرت اور گزشتہ دو صدیوں سے نفرت  کا نشانہ بننے والی قومیت سے تعلق رکھتے ہوئے اپنا دفاع کرنا کس قدر مشکل  ہے ، یہ اس گرداب میں پھنسی خواتین ہی جانتی ہیں۔  (الف یار)

عصر حاضر اور مسلمان عورت:

عصرِ حاضر کو’’ نالج پاور اور سائنس وٹکنالو جی کے عروج کا دور‘‘ قراردیا جا ئے تو غلط نہیں ہو گا۔ گذرے بر سوں میں سائنس و ٹکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے نت نئے اور حیرت انگیز ایجادات سے دنیا کو متعارف کر وایا ہے۔ حیران کردینے والی یہ ایجادات اور اشیاء کبھی ذہنی سطح پر ناقابلِ یقین ضرور لگتی ہیں لیکن حقیقت بن کر ہمارے سامنے مو جود ہیں۔ روز مرہ کی زندگی میں کسی نہ کسی سطح پر ہم نہ صرف ان سے مر بو ط ہیں بلکہ ہمارے لیے ان اشیاء کا استعمال ناگزیر بن گیا ہے۔ترقی کی یہ رفتار کسی ایک خطہ زمین تک محدود نہیں رہ گئی ہے بلکہ ’’ عالم کاری (گلوبا لائزیشن) ‘‘ کے نتیجے میں دنیا کی تقریباً تمام سرحدوں تک آپہنچی ہے۔ اس تیز رفتار ترقی نے انسانی زندگی کوبڑا متاثر کیا ہے۔جس کے نتیجہ میں زند گی کے معیارات،ضروریات اور تقاضے تبدیل ہو گئے ہیں اورسیاسی ،سماجی، تعلیمی ،معاشی ، تہذیبی اور دیگر شعبوں میں بے شمار نئی نئی تحدیات (Challenges)پیدا ہوگئی ہیں۔ جن کا سامنا کرنا تمام افراد کے لیے اب نا گزیر بن گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر دور میں ترقی کی رفتار کے ساتھ ساتھ زندگی کے معیارات بدلتے رہتے ہیں اور جدید تقاضے افراد کو ہم قدم ہو کر ساتھ چلنے کے لیے آواز دیتے رہتے ہیں۔اس آواز پر توجہ دینے اور مثبت انداز میں عمل پیرا ہونے والے افراد کا میابی کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن رہتے ہیں ۔

اگر چہ کہ مختلف ممالک واقوام کے سماجی و تہذیبی تناظرمیں ان تحدیات کی نو عیت جدا جدا ہوتی ہے اور زندگی کی بقا اور ارتقاء کے لیے اسی کے مطابق انفرادی واجتماعی کو ششیں ہو تی رہتی ہیں۔ تا ہم عصرِ حا ضر کی تیز رفتار ترقی میں ابھرنے والی تحدیات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس پس منظر میں ہندوستان جیسے مختلف مذاہب اور طبقات پر مشتمل کثیر آبادی والے ملک کا جائزہ لیں تو بے شمار تحدیات سامنے آتی ہیں جو عصرِ حاضر میں اس ملک کے افراد بالخصوص خواتین کو درپیش ہیں۔مجموعی طور پر ہندوستانی خواتین کا جائزہ لیں تو وہ متضاد صورت حال کی حامل نظر آتی ہیں۔جہاں وہ تعلیم یافتہ اور ایک بااختیار فرد کی حیثیت کی حامل ہیں وہیں وہ مختلف النوع مسائل وتحدیات سے دوچار بھی نظر آتی ہیں۔ جبکہ مزید گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو ہندوستانی خواتین ، مذہب،طبقہ ، ذات پات اور صنف کے دائرے میں جکڑی بے شمار مسائل میں گھری حاشیائی حیثیت کی مالک نظر آتی ہیں۔اس تناظر میں مسلم خواتین کے صورت حال اور ان کی ترقی کے لیے درپیش تحدیات کا جائزہ نہایت اہمیت کا حامل لگتاہے ۔

مطالعے کے مقاصد:

ہندوستان میں خواتین کی آبادی کی بڑی شرح آج بھی ناخواندگی، پسماندگی ، غربت اور بے شمار صنفی مسائل کا شکار ہیں۔ ازماضی تا حال خواتین کی حیثیت کے اس بدلتے مو قف اور عصرِ حاضر کے تناظر میں یہ جا ننا مقصد ہے کہ

  ...  عصرِ حاضر میں ہندوستانی مسلم خواتین اپنا کیا مو قف رکھتی ہیں ؟

   ... ہندوستان میں مسلم خواتین کس طرح کے مسائل سے دوچار ہیں ؟

   ... کیا ہندوستانی مسلم خواتین عصری تحدیات کا مقابلہ کرنے اور ترقی کے مرکزی دھارے میں شامل ہونے کے قابل ہیں؟

طریقہ کار :

زیرِ بحث مقالہ تجزیاتی تحقیق پر مبنی ہے۔ منتخبہ موضوع پرمطالعہ کے لیے متنی تجزیہ کا استعمال کیا گیا۔ مسلم خواتین کی صورت حال اور ان کے مسائل وتحدیات کو جاننے کے لیے سرکاری وغیر سرکاری سطح پر کی گئی تحقیقا ت اور شائع شدہ سروے رپورٹس نیز مردم شماری رپورٹ و دیگر ثانوی مراجع کو بنیاد بنایا گیا۔اعداد وشمار اور متن کے تجزیے کی بنیاد پر نتائج اخذ کیے گئے۔

مطالعہ و تجزیہ:

ہندوستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ اس ملک کی ایک خاص تاریخی، سیاسی ،سماجی ،مذہبی و تہذبی شناخت رہی ہے۔اس ملک کی کل آبادی مختلف مذاہب اور زبان وتہذیب کے حامل افراد پر مشتمل ہے۔ملک کی آبادی کا تقریباً چودہ فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔کثیر آبادی والے اس ملک میں مسلمان قوم کو سب سے بڑی اقلیت کا درجہ حا صل ہے ۔دستورِ ہند کے مطابق مسلمانوں کو بھی بہ حیثیت ہندوستانی شہری ترقی کے اتنے ہی مساویانہ مواقع اور حقوق حا صل ہیں جتنے کہ اس ملک کے د یگر طبقات کو حا صل ہیں۔ با وجود اس کے مسلمانو ں کی صورت حال کے متعلق شائع شدہ مختلف رپورٹس کے نتا ئج ظا ہر کر تے ہیں کہ مسلمان تمام شعبہ ہا ئے حیات میں دیگر مذاہب کے افراد کے مقابلے میں پچھڑے ہو ئے ہیں اور ترقی کے مرکزی دھارے میں شامل نہیں ہیں۔ مسلمان طبقہ کی بڑی تعداد عصرِ حاضرکے بدلتے معیارات اور تقاضوں کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کے قابل نہیں ہیں۔ انھیں تعلیمی، سماجی،معاشی ،ثقافتی اور سیاسی سطح پر کئی تحدیات کا سامنا ہے ۔ مسلمانوں کی مجموعی صورتحال کے مقابلہ میں خواتین کی  صورت حال اور بھی ابتر اور پسماندہ ہے۔مسلم خواتین ترقی سے کوسوںدور ہیں۔اگر چہ کہ ملک کی آزادی کے بعد لڑکیوں و خواتین کی تعلیم وترقی کے لیے گوناگوں اقدامات اختیار کیے گئے لیکن ان کے اثرات ملک کے تمام طبقات کی خواتین پر مرتب نہیں ہو سکے ،بالخصوص مسلم خواتین تعلیم وترقی کے میدان میں کافی پچھڑ گئیں۔ اس ضمن میں اوشا نائر کی رپورٹ (2007) کا ایک اہم اقتباس یہاں پیش کرنا بے جا نہ ہوگا۔وہ لکھتی ہیں:

Muslim girls and Women lag behind their male counterparts and women of all other communities. The Nation is committed to educational advancement and empowerment of all Indian women in pursuance of the Constitutional commitment of equality and life with dignity as reflected in our National policy of Education,1986 and its revised Programme of Action 1992. Further, we stand committed to international covenants like the Declaration of Human Rights, CEDAW,Rights of the Child, ICPD,Millenium Development Goals(MDG) among others.

گذرے برسوں میں قومی و ریاستی سطح پرتحقیقاتی ایجنسیو ں اور جا معات کے تحت مسلمانوں کے مسائل جاننے کی بڑی سنجیدہ کو ششیں ہو ئی ہیں اور نہایت اہم رپورٹس منظرِ عام پر آئی ہیں۔ان میں ایک سچر کمیٹی رپورٹ بھی ہے جو 2006 میں شائع ہوئی ۔ سچر کمیٹی رپورٹ کے مطابق،’’ہندوستان کی مختلف ریا ستوں کے مسلمانوںکی حا لت میں خا صا فرق پا یا جا تا ہےمسلم فرقہ ترقی کے عمل کے تمام شعبوں میں نقصانات اور محرومیوں سے دوچار ہے۔زیرِ غور تمام اشار یوں کے لحاظ سے مسلمانوں کی حا لت کم و بیش ایس سی ،ایس ٹی سے کچھ بہتر مگر ہندو اوبی سی ،دیگر اقلیتوں اور عام ہندئوں ہندوؤں سے بد تر ہے۔‘‘ ( ص ، 231 )

سچر کمیٹی رپورٹ میں جہاں مجموعی طور پر مسلمانوں کی تعلیمی ،سماجی اور معاشی حیثیت کی افسوسناک تصویر نظر آتی ہے وہیں اس رپورٹ میں مسلم خواتین کے مو قف کے نقوش کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر چہ کمیٹی نے خواتین کی مکمل صورت حال کو جاننے کی با قاعدہ اور منظم کو شش نہیں کی لیکن اس رپورٹ میں جس طرح کے نتائج اخذ کیے گئے ان سے ہندوستان  میں مسلم مرد افراد کے مقابلے میں خواتین کی پست ترین صورت حال کا اندازہ ضرور لگا یا جا سکتا ہے۔ ذیل میں اس رپورٹ کے مختلف انکشافات سے چند اقتباسات کو یکجا کیا گیا ہے تا کہ مسلم خواتین کی تعلیمی ، صحّی، معاشی و سماجی حیثیت کے خد وخال وا ضح ہو سکیں۔یہ سطور ملا حظہ ہوں:

1۔مسلم خواتین خواندگی اور تعلیم میں ہندوستان کی ایس سی ، ایس ٹی کے علاوہ دیگر پسماندہ خواتین اور دوسری اقلیتی خواتین سے بھی پچھڑی ہو ئی ہیں۔

2۔شدید غربت مسلم بچیوں میں تعلیمی سلسلہ منقطع کرنے کا اصل سبب ہے۔

3۔زیادہ تر مسلم خواتین گھروں میں رہ کر کیے جا نے والے کا موں سے وابستہ ہیں۔اسی لیے وہ دوسروں پر منحصر ہو تی ہیں۔

4۔عصرِ حا ضر میں گھریلو روزگار ختم ہو نے کی وجہ سے مسلم خواتین سخت افلاس کا شکار ہیں۔

5۔گھروں میں رہ کر کام کر نے والی خواتین پیداواری سلسلے کی نچلی سطح پر پہنچ گئی ہیں۔

6۔مسلم خواتین میں غریبی،تعلیم اور تکنیکی مہا رت میں کمی کے نتیجے میں ہنر مندی نہیں ہو تی ۔جس کے نتیجے میں ان کی آمدنی بھی کم ہو جا تی ہے۔

7۔مسلم خواتین کی صحت کے مسائل، صحت کی ابتری تشویش ناک حد تک بد تر ہے۔

8۔مسلمان بطورِ خاص خواتین حکو مت کی ترقیاتی اسکیموں تک بالکل نہیں پہنچ پا تے۔

9۔مسابقتی امتحانوں میں مسلم لڑکیوں کی کارکر دگی دوسروں کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔

ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں مسلم خواتین کی زندگی سے متعلق ایک ڈاکومنٹری آپ ذیل میں دیکھ سکتے ہیں:

دیگر رپورٹس میں خواتین کی پسماندگی  اور کم شرح خواندگی کی تصویر:

سچر کمیٹی رپورٹ کی اشاعت سے قبل اور مابعد شائع ہو نے والی رپورٹس سے بھی مسلم خواتین کے پسماندہ صورت حال کی تصویریں جھلکتی ہیں۔مسلم خواتین اپنے حقوق سے ناواقفیت اور کم تعلیم و غربت کی وجہ سے ہندوستان کی دیگر خواتین کے مقابلے پست ترین صورت حال کی حامل ہیں۔( سیما قاضی1999)۔ ہندوستان میں مسلم خواتین بہ حیثیت شہری عدم مساوی مقام کی حامل ہیں۔ حقوق و مراعات سے ان کی محرومی اور نقصان کی تین وجوہات ہیں۔ایک یہ کہ وہ اقلیتی طبقہ کی فرد ہیں۔ دوم یہ کہ وہ ایک’’ عورت ‘‘ ہے اور تیسری وجہ یہ کہ وہ ایک غریب عورت ہے۔ ان اسباب کے علاوہ مسلم خواتین معاشرتی سطح پر برتے جانے والے صنفی امتیازات اور عدم مساوات کا بھی شکار ہیں۔ یہ تمام عوامل مسلم خواتین کی ’’ساختیاتی بے اختیاری‘‘ کو فروغ دیتے ہیں۔ (زویا حسن2004)۔

2011کی مردم شماری رپورٹ میں مسلم خواتین کی خواندگی کا فیصد 51.9 اور مسلم مردوں میں خواندگی 62.41 ریکارڈکیا گیا، جب کہ دیگر مذاہب کی خواتین میں خواندگی کا تناسب اس سے بہتر رہا ۔جیسے ہندو مذہب کی خواتین 55.98 فیصد خواندہ ہیں اورعیسائی71.97 فیصد، سکھ 63.29 فیصد اور سب سے زیادہ خواندگی کا فیصد یعنی 84.93 جین مذہب کی خواتین میں رہا۔ مسلم لڑکیوں کو ابتدائی جماعتوں میں داخلہ تو دلوایا جاتا ہے لیکن جیسے جیسے ان کے تعلیمی مدارج بڑھتے جاتے ہیں ان کی ترکِ تعلیم بھی بڑھتی جاتی ہے۔ کم عمری کی شادی اور عائلی مسائل سے مسلم خواتین آج بھی جوجھ رہی ہیں(سیدہ سیدین1999)۔ بیشترمسلم لڑکیاں بے شمار مسائل کی بناء پر ثانوی سطح پر یا دسویں جماعت کے بعد ترکِ تعلیم پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ اسی لیے اعلیٰ تعلیم تک پہنچ نہیں پاتیں۔یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم میں ان کی شرکت نہایت کم ہو جاتی ہے ۔یو نیورسٹی گرانٹ کمیشن نے نیشنل سیمپل سروے (2004-2005 )کی بنیاد پر ایک رپورٹ جاری کی ۔اس رپورٹ کے مطابق اعلیٰ تعلیم میں مسلم طالبات کا فیصد صرف 5.81 ہے جبکہ ہندو مذہب کی خواتین کا فیصد 9.32، عیسائی16.02 اور سکھ مت کی خواتین کا فیصد 12.25ہے۔(یو جی سی،2009)۔

آج بھی مسلم معاشرے میں بڑی تعداد ایسے خاندانوں کی ہے جن کی لڑکیاں پہلی گریجویٹ کی حیثیت سے اپنے تعلیمی مدارج طے کر رہی ہیں(تحسین(2019۔مسلم معاشرے میں لڑکیوں کو دینی تعلیم دلوانے کا رواج عام ہے۔ بلکہ پچھلی دہائیوں میں اس رجحان میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ لہذا مختلف شہروں ودیہاتوں میں لڑکیوں کے لیے کئی دینی مدارس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ جہاں بنیادی اسلامی تعلیم کے علاوہ حافظہ، عالمہ ، فاضلہ اور دکتورہ کی اسناد کے لیے تعلیم دی جارہی ہے۔ان مدارس کے قیام سے مسلم لڑکیوں میں خواندگی کا فیصد بڑھ رہا ہے اور غیر روایتی تعلیم کے ذریعہ وہ مذہبی علوم سیکھ رہی ہیں تاہم دینی مدارس سے فارغ التحصیل طالبات پر کیے گئے سروے میں ایک حقیقت یہ سامنے آئی کہ ان مدارس کی تعلیم یافتہ لڑکیاں سماج میں اپنے معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے دیگر شعبہ جات میں روزگار حاصل کر نے میں سخت دشواری محسوس کر رہی ہیں۔ روزگار کا حصول ان کے لیے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ مذکورہ طالبات نے اس دشواری کی اہم وجہ دینی تعلیمی نصاب کے ساتھ عصری تعلیم اور ماہرانہ صلاحیتوں کے فروغ کے تربیتی پروگرام کی عدم شمولیت کو قرار دیا۔ (تحسین2015(

مسلم خواتین کی معاشی کمزور صورت حال:

ہندوستان میں مسلم خواتین کی تعلیمی حیثیت کے علاوہ معاشی حیثیت یا کام میں ان کی حصہ داری (work participation rate) کا جائزہ لیں تو نہایت مایوس کن صورتِ حال سامنے آتی ہے۔سال 2001کی مردم شماری کے مطابق معاشی سر گرمیوں میں ان کی حصّہ داری 14.1 تھی جب کہ 2011 میں کسی قدر بڑھ کر 14.8فیصد ہوئی ہے۔جو قومی اوسط سے نہایت کم ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تعلیم و ماہرانہ تربیت کی کمی اور دیگر سماجی وثقافتی رکاوٹوں کے باعث مسلم خواتین گھریلو سطح کے کام انجام دیتی ہیں۔ دراصل عرصہ دراز سے مسلم خواتین متعدد اہم دستکاری اور گھریلو صنعتوں سے وابستہ ہیں اور ہندوستان کی معیشت کو بڑھانے میں اہم کارکن کا فریضہ نبھاتی آئی ہیں۔ لیکن وہ ہندوستان کی جیسےInvisible workforce ہیں۔چونکہ مسلم خواتین زیادہ تر معاشی سر گرمیاں گھریلو سطح پر ہی انجام دیتی ہیں اسی لیے ان کی اجرت بھی کم ہو تی ہے ۔لہذا مسلسل محنت کے باوجود بیشترمسلم خواتین کی غربت کی سطح میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو پاتی ہے۔علاوہ ازیں ان کے کام غیر منظم شعبہ سے جڑے ہوتے ہیں جس کا کوئی باقاعدہ نظم نہیں ہوتا لہذا انھیں قومی اعداد وشمار میں شامل نہیں کیا جاتا اسی لیے مسلم خواتین کی کاروبار یا مختلف صنعتوں میں اہم حصّہ داری ہو نے کے باوجود مجموعی ترقی کے مرکزی دھارے (Mainstream) میں شامل نہیں کیے جاتے۔

سماجی مسائل:

درجہ بالا مذکورحقایق کے علاوہ مسلم خواتین بے شمار سماجی مسائل سے بھی دوچار ہیں۔ ہندوستان میں بڑھتی فرقہ واریت،مذہبی شدت پسندی کی بناء پر گذرے برسوں میں ملک کے کئی شہروں میں ہو ئے فرقہ وارانہ فسادات اس بات کے کھلے ثبوت ہیں کہ ان سے مسلم خواتین تعلیمی،سماجی،معاشی اور صحتی اعتبار سے کس حد تک متاثر ہو ئیں ہیں۔ ملک کے کئی ایسے علاقے ہیں جہاں سے عدم تحفظ اور خوف و دہشت کے عالم میں بے شمار خاندانوں کو نقلِ مکانی کر نی پڑی ۔ آج وہ خاندان کسمپرسی کی حالت میں اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایسے حالات میں مسلم لڑکیوں کی تعلیم وترقی اور ان کے تحفظ کی طرف تو جہ دینا ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ دوسری طرف ایسے پریشان کن حالات سے دوچار خاندانوں کی خواتین نہایت چھوٹے کام بھی کر نے پر مجبور ہو رہی ہیں تاکہ کچھ ذریعہ آمدنی ہو اور بھوک کو مٹایا جا سکے۔ان شورش زدہ حالات کے پس منظر میں ریاستِ جموں وکشمیرکا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ سیاسی وسماجی عدم استحکام کے حالات نے وہاں کی مسلم خواتین کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ وہ بے شمار مسائل میں گھر گئی ہیں۔ وہاں کے شورش زدہ حالات میں مرد افراد کی اموات ، گم شدگی یا حصولِ معاش کے لیے نقلِ مکانی کے نتیجے میں جہاں’’ خاتون سربراہ خاندان‘‘ کا اضافہ ہو رہا ہے وہیں غربت میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔

عائلی مسائل اور صنفی تفاوت:

مختلف رپورٹس اور مطبوعات کے جائزے سے یہ حقیقت بھی واضح ہو تی ہے کہ سیاسی وسماجی دائروں کے علاو ہ خاندانی سطح پر بھی مسلم خواتین کئی عائلی مسائل میں گھری ہو ئی ہیں۔ہندوستان کے تہذیبی عناصر نے مسلم سماج کو بھی اپنے رنگ میں پوری طرح رنگ ڈالا ہے ۔ ہندوستان کے دیگر مذاہب کی طرح مسلم معاشرہ میں خواتین سے متعلق کئی نظریات، رواج، رسومات اور روایتیں فروغ پا گئی ہیں۔اگر چہ کہ اسلام میں اس طرح کی کو ئی لغویات نہیں ہیں جو خواتین کے درجات کو کسی بھی حیثیت سے کم کر تی ہوں۔بلکہ مذہبِ اسلام نے چودہ سو برس قبل خواتین کو بے شمار حقوق دے کر انہیں ایک باوقار سماجی زندگی کا حق دار بنایا اور تمام دنیا کے سامنے حقوقِ نسواں کا بہترین ماڈل پیش کیا۔

مذہبِ اسلام نے خواتین کو مردوں کے برابرزندہ رہنے کا حق،تعلیم حا صل کر نے حق، وراثت کا حق، اقتصادی طور پر خود کفیل ہو نے کا حق ،فیصلہ سازی کا حق،اور اظہارِ رائے کی آزاد ی کا حق دے کر معاشرہ کی اہم فرد کا درجہ دیاور اسے ترقی کے تمام مواقع عطا کیے ۔لیکن مسلم معاشرہ نے گذری صدیوں میں اپنے فکر و عمل میں تبدیلی سے اسلام کے دیے گئے اس ماڈل کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ اسلام کے معاشرتی نظام نے بدلتے وقت کے تقاضوں سے جڑنے اور اس سے خود کو ہم آہنگ کر نے کی آزادی سے مرد وخواتین دونوں کو سر فراز کیا اور ’’ صنفی مساوات‘‘ کی بنیاد پر دنیا کو’’ پا ئدار ترقی‘‘ کا تصور دیا۔ اس ضمن میں مختلف آیات ، احا دیث اور عہدِ نبوی کے واقعات اور بعد کے ادوار سے نمایاں افراد و کارناموں کے حوالے پیش کیے جا سکتے ہیں۔ جن کی مدد سے ہم مذہبِ اسلام میں خواتین کے وجود کی اہمیت اور ماضی کی کا میاب و ترقی یافتہ مسلم خواتین کی تصویر بخوبی دیکھ سکتے ہیں تا ہم عصرِ حا ضر میں عالمی سطح پر مسلم خواتین کے صورت حال کی تصویر ما ضی کی مسلم خواتین سے بالکل بر عکس ہے اور انتہائی تشویشناک حد تک خراب ہے ۔

مسلم معاشرے میں بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جنہوں نے ا سلامی تعلیمات کے بالکل بر خلاف خواتین کوبنیادی و شرعی حقوق سے محروم رکھا ہواہے۔ اسلام کے بتائے ہوئے نظام پر عمل نہ کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ بیشتر لڑکیاں و خواتین جہیز کی رسم، شادی میں مشکلات نیز طلاق و خلع کے مسائل سے جوجھ رہی ہیں۔ مہیلا کورٹس و پو لیس اسٹیشنوںمیں درج کیے گئے مقدمات، دارالقضاۃ اور فیملی کورٹس میں برسوں سے زیرِ دوراں مقدمات یا قضاۃ کے دفتر میں مو جود،طلاق و خلع کے سینکڑوں ریکارڈز مسلم معاشرے کے انتشار و خاندانی نظام کی بنیادوں میں دراڑ کی نشاندہی کر رہے ہیں۔جس سے نہ صرف مسلم خواتین کی حیثیت متاثر ہو ئی چلی آرہی ہے بلکہ نئی نسل پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔

سماجی سطح پر عدم تحفظ ،فرقہ واریت ، علاقہ واریت ، سماجی تعصبات ، خواتین کے متعلق خود مسلم معاشرہ کے ذہنی تحفظات ، صنفی تعصبات ا ور پدر سری نظریات جہاں مسلم خواتین کی تعلیم و ترقی میں رکاوٹ بنے ہو ئے ہیں وہیں خود مسلم خواتین کی فرسودہ خیالی ،احساس ِ کمتری،بے شعوری، اپنے دستوری اور شرعی حقوق سے نا واقفیت اور اپنے وجود کی اہمیت و اپنی صلاحیتوں سے بے نیازی اورتساہل نے بھی انھیں پسماندہ بنا رکھا ہے۔الغرض ایسے کئی عوامل ہیں جو عرصہ درازسے مسلم خواتین کی پسماندگی کا با عث بنے چلے آرہے ہیں۔

مابعد سچر کمیٹی رپورٹ مسلمانوں کی تعلیم وترقی کے لیے اپنائے گئے اقدامات نیز مسلم معاشرہ پر مرتب ہونے والے اثرات پر فی زمانہ کئی مطالعات منظرِ عام پر آئے ہیں۔ جن کے مجموعی جائزے سے یہ حقیقت واضح ہو تی ہے کہ وقت کے گذرنے کے باوجود مسلم معاشرے میں خواتین کی صورت حال میں خاطر خواہ تبدیلیاں واقع نہیں ہو ئیں اور مسلم خواتین مجموعی طور پر جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے نیز ترقی کی دوڑ میں شامل ہو نے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہیں۔ اگر چہ کہ گذرے برسوں میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر کئی اقدامات اختیار کیے گئے ۔ باوجود اس کے مختلف رپورٹس اور اعداد وشمار کے تجزیہ سے ہندوستان میں مسلم خواتین کی تعلیمی ،معاشی ،سماجی اور صحتی اعتبار سے نہایت پست حیثیت و زبوں حالی کی تصویر سامنے آئی ہے۔اس تصویر کو دیکھ کر یہی سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ جب مذہبِ اسلام نے خواتین کو تمام بنیادی حقوق سے سرفراز کیا اوربہ حیثیت ہندوستانی شہری کے، انہیں تمام دستوری اور قانونی تحفظ ، حقوق اور مراعات حاصل ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ تمام احکامات، اقدامات اور عملی کو ششیں رائیگاں ثابت ہو رہی ہیں؟ ہندوستان میں مسلم خواتین کی حیثیت آخر اتنی پسماندہ کیوں بنی ہو ئی ہے ؟ حد درجہ پست حیثیت کی مالک مسلم خاتون دورِ حا ضر کی مادی ضرورتوں کی تکمیل نیز بہتر سماجی زندگی کے تقاضوں کو کس طرح سے پوراکر پائے گی؟اور عہدِ حاضر کی تحدیات کا سامنا کس طرح کر پا ئے گی؟

اختتامیہ:

گزشتہ سطروں میں پیش کیے گئے نکات کے تناظر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ مسلم خواتین کی اس پسماندہ اور حاشیائی حیثیت میں تبدیلی اور ان کی ترقی تب ہی ممکن ہے جب خواتین سے متعلق مسلم معاشرہ کی سوچ ،فکر اور عمل میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوں گی۔مسلم معاشرہ صنفی تعصبات اور ذہنی بندشوں سے باہر نکل کر خواتین کی تعلیم اور جدید تقاضوں کے مطابق ان کی معاشی حصہ داریوں کو تسلیم کرے گا ۔نیز انہیں باشعور وبا اختیار بننے کے تمام تر مواقع فراہم کر ے گا۔ مسلم معاشرہ تعلیم وتربیت گاہوں کے قیام کی طرف پہلے کی بہ نسبت زیادہ توجہ دے تو بہتر نتائج آسکتے ہیں۔بالخصوص خواتین کے لیے طویل مدتی تربیتی کورسس کا انعقاد عمل میں لایا جائے تاکہ ان کے ہنر میں اضافہ ہو اور وہ اپنا کام پورے اعتماد کے ساتھ انجام دے سکیں۔ اس مقصد کے حصول میں خود خواتین کو تساہل کی زندگی چھوڑ کر بڑا اہم اور فعال کردار اداکرناہوگا ۔انہیں خاندان وسماج میں اپنے وجود کی اہمیت کو سمجھنا اور اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو سمجھانا ہوگا ۔

آج مسلم خواتین کو صرف روایتی طرز پر تعلیم حاصل کر نے کی ہی ضرورت درپیش نہیں ہے بلکہ عصرِ حاضر کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اعلیٰ و پیشہ وارانہ تعلیم کے میدان میں آگے آئیں اور تکنیکی تربیت بھی حاصل کریں تاکہ انہیں روز گار سے جڑنے اور اپنی اور اپنے خاندان کی معاشی حیثیت کو بہتر بنانے میں آسانی ہو۔ جو خواتین گھریلو معیشت کے مختلف ذرائع سے وابستہ ہو ئی ہیں انہیں جدید تقاضوں کے مطابق ہنر مندیوں اور اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی تربیت اور ان کے فروغ پر توجہ دینے کی سخت ضرور ت ہے تاکہ وہ اپنے کام اور محنت کی اجرت زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکیں ۔نیز ان کا کام ترقی کے مرکزی دھارے میں شامل ہو سکے ۔

مسلم خواتین چونکہ بے شمار عائلی مسائل اور گھریلو تشدد سے متا ثر ہیں اسی لیے ان کے لیے ایک با شعور فرد کی حیثیت سے اپنے شرعی ودستوری حقوق سے واقفیت حاصل کر نالازم ہوگیا ہے ۔جس کے استعمال سے وہ اپنی نجی وسماجی زندگی باوقار انداز سے گذار سکتی ہیں۔اس بات کی بھی سخت ضرورت ہے کہ خواتین کی تعلیم، ترقی وبااختیاری کے لیے دستیاب سرکاری سہولتوں او روسائل تک ان کی پہنچ ہو اور وہ استفادہ کر پائیں۔اس مقصد کی تکمیل کے لیے محلہ واری سطح پر زیادہ سے زیادہ شعور بیداری پروگرام منعقد کیے جائیں۔ان مقاصد کی تکمیل کے لیے حکومت یا مذہبی وسماجی تنظیموں کو ذمہ دار ٹہرانے کے بجائے مسلم معاشرے کے زیادہ سے زیادہ مرد وخواتین کو اب میدانِ عمل میں آنااور مختلف اقدامات کو اپنانا نا گزیر ہو گیا ہے تاکہ مسلم خواتین کی تعلیمی ،سماجی ،معاشی وصحتی پست حالت کو بہتر بنایا جا سکے اور ہندوستانی سماج میں ان کی مسخ شدہ شبیہ کو بہتر بنایا جا سکے۔ انہیں اس قابل بنایا جاسکے کہ وہ اپنے شرعی، دستوری و قانونی حقوق کا استعمال کرتے ہو ئے ، تعلیم یا فتہ ، ہنر مند ،با صلاحیت ،با شعورا ور با اختیار سماجی فرد کی حیثیت سے ہندوستان میں باوقار زندگی گزارسکے نیز بدلتے تقاضوں اور نئی تحدیات کا مقابلہ کر نے کی اہل ہو سکے۔

(آمنہ تحسین  مولانا محمد آزاد یونی ورسٹی، حیدرآباد، ہندوستان میں شعبہ تعلیم کی سربراہ ہیں)

متعلقہ عنوانات