لیکن

زندگی تجھ سے توقع تو بہت تھی لیکن
ترے فیضان دل آویز کے دامن میں مگر
مرے حصے کی خوشی کا کوئی آنسو بھی نہیں
کوئی شبنم کوئی تارا کوئی جگنو بھی نہیں
کوئی دیوار کوئی در کوئی سایہ بھی نہیں
کوئی اپنا بھی نہیں کوئی پرایا بھی نہیں
ایک لا سمت سفر پر میں رواں ہوں اب تک
خود سے کہتا ہوں کہ میں ہوں
پہ کہاں ہوں اب تک
حبس بے جا کا تسلسل بھی ہے تنہائی بھی
جانے کیوں ان دنوں امید بھی ہے خاک بسر
جانے کیوں ان دنوں مایوس تمنا کی نظر
یوں بھی با لواسطہ ہوتی ہے مخاطب اکثر
اے مصائب سے الجھتے ہوئے تنہا پیکر
کون ہے تو کہ ترے تیرہ شبستاں میں کبھی
چاندنی کوئی پئے پرسش غم آئی نہیں
کون ہے تو ترے ایام کے آئینے میں
کوئی رخسار کا خاکہ کوئی گیسو بھی نہیں
کوئی شبنم کوئی تارا کوئی جگنو بھی نہیں
ترے حصے میں خوشی کا کوئی آنسو بھی نہیں
بے کراں عالم تنہائی کا احساس شدید
حد سے ہوتا ہے زیادہ تو مفر کی خاطر
خود کلامی میں بسر کرتا ہوں بوجھل لمحے
اور آراستہ ہوتی ہے خیالی محفل
خود فریبی کا یہ انداز ہے گو واقف ہوں
خود فریبی تو نہیں غم کا مداوا لیکن