احتیاطاً کوئی جواب نہ دے
احتیاطاً کوئی جواب نہ دے
پیالہ بے ظرف ہے شراب نہ دے
دائرہ بند مشک بو کو صدا
اے دل خانماں خراب نہ دے
خاطر زود رنج رکھتا ہوں
نا دمیدہ کوئی گلاب نہ دے
حادثے میں شریک تھے کتنے
مہرباں جھوٹ سچ حساب نہ دے
خواب اسلاف خواب ہے اب تک
از سر نو مزید خواب نہ دے
کار بے سود ہے مجھے ناحق
قد سے اونچا کوئی خطاب نہ دے
جانچ حالات کے تناظر میں
جرم کا فیصلہ شتاب نہ دے
کون سنتا ہے کسی کا افضلؔ
روز و شب درس انقلاب نہ دے