آشنا شکل ناآشنا آدمی

آشنا شکل ناآشنا آدمی
خود فریبی میں ہے مبتلا آدمی


جانے کن کن عنایات سے ٹوٹ کر
جھیلتا ہے شکست انا آدمی


کتنا مشکل ہے مردم شناسی کا فن
کتنا گھائل تھا وہ مسخرہ آدمی


کس سے احوال کی کوئی پرسش کرے
دوڑتا بھاگتا حادثہ آدمی
اک حباب رواں موج سیال پر
ہے مگر کس قدر خود نما آدمی


یوں تعلق شکن ہے یہ تہذیب نو
بن گیا اک جزیرہ نما آدمی


ڈھونڈ لائے تھے دیر و حرم سے ابھی
پھر کہاں کھو گیا سر پھرا آدمی


اپنے مسلک کا وہ آخری فرد تھا
کھوٹی دنیا میں افضلؔ کھرا آدمی