دل شکستہ ہے روح پیاسی ہے

دل شکستہ ہے روح پیاسی ہے
ایک بے نام سی اداسی ہے


رنج کیا عیش کیا تمیز کسے
سلسلہ وار بد حواسی ہے


صاف گوئی کہ وصف تھی پہلے
ان دنوں جرم ناروا سی ہے


کتنا آساں ہے معتبر ہونا
کتنی دشوار خود شناسی ہے


میری عصیاں نگاہی کا موجب
آپ کی مختصر لباسی ہے


تھوڑی جرأت سے کیا نہیں ہوتا
پھر وہ لڑکی بھی آدی باسی ہے


میرے شعروں میں فن نہیں نہ سہی
آپ کی رائے اقتباسی ہے


ریشمی زلف چاند سا چہرہ
سر پہ آنچل مگر کپاسی ہے


پیاسی پیاسی ہے آرزو افضلؔ
مملکت دل کی کربلا سی ہے