لمحے شمار ذات بھی کرنے نہیں دئے

لمحے شمار ذات بھی کرنے نہیں دئے
پورے یہ واجبات بھی کرنے نہیں دئے


پیش نظر ہیں اپنے مقدر کی تلخیاں
ان سے مطالبات بھی کرنے نہیں دئے


بدلے جو حرف لفظ کے معنی بدل گئے
محفوظ واقعات بھی کرنے نہیں دئے


دنیا کے سانحات نے دل کو رلا دیا
تحریر حادثات بھی کرنے نہیں دئے


موسم نئے تھے دل کے کنول کیوں نہ کھل سکے
کچھ عہد التفات بھی کرنے نہیں دئے


ملتی کوئی کلید ہی عرفان ذات کی
دنیا نے تجربات بھی کرنے نہیں دئے