لہو کی موج میں جینا مرے حصے میں آیا ہے

لہو کی موج میں جینا مرے حصے میں آیا ہے
بھنور بنتا ہوا دریا مرے حصے میں آیا ہے


سنہری عہد ماضی کی روایت ہم سے تھی لیکن
فقط دیمک لگا پنا مرے حصے میں آیا ہے


پرندے آشیانہ چھوڑ کے کس سمت جا نکلے
دکھوں کا اک شجر تنہا مرے حصے میں آیا ہے


روپہلی چاندنی اس کو امیر شہر کی بخشش
سلگتی دھوپ کا صحرا مرے حصے میں آیا ہے


دریچے کھول کے بھی رت کا اندازہ نہ کر پاؤں
عجب دہشت زدہ لمحہ مرے حصے میں آیا ہے


تبسمؔ ہاتھ میں جگنو لئے در در بھٹکتی ہوں
کہ گھائل رات کا نوحہ مرے حصے میں آیا ہے