کچھ نظارے ہیں کچھ نظر باقی

کچھ نظارے ہیں کچھ نظر باقی
اور کچھ کوس کا سفر باقی


رہ گیا ہے کتاب میں دن کی
شام کا باب مختصر باقی


اس خزاں میں بھی کچھ مہکتا ہے
دل ہے باقی ابھی جگر باقی


خاک ہی خاک ہوں مگر چھو مت
عشق کا ہے ابھی شرر باقی


وقت رخصت پلٹ کے برسی جو
ہے نگاہوں میں وہ نظر باقی


دھل گئی تھی جو تیرے اشکوں سے
خط میں وہ ہی ہے اک سطر باقی


کسمساتے ہیں پاؤں کے چھالے
ہے ابھی بھی کوئی سفر باقی