کچھ غزلوں پہ اب سے حیرت ہوتی ہے
کچھ غزلوں پہ اب سے حیرت ہوتی ہے
اس سے اس سے سب سے حیرت ہوتی ہے
ایماں کی کمزوری ہے کچھ اور نہیں
جس کو بھی مذہب سے حیرت ہوتی ہے
ملنے آنا تم نے جب سے چھوڑ دیا
مجھ کو تجھ پہ تب سے حیرت ہوتی ہے
اک دوجے کا جینا مشکل کرتے ہیں
اس دنیا میں سب سے حیرت ہوتی ہے
پچھلی شب اک خواب میں سورج کو دیکھا
اس اک روشن شب سے حیرت ہوتی ہے
تم کو تو یہ سب کچھ راس نہ آتا تھا
تم کو یارا کب سے حیرت ہوتی ہے
دریا ملنے آیا شاید اس کو بھی
میرے تشنہ لب سے حیرت ہوتی ہے