کوئی چاہت ہی رہی اور نہ سودا سر میں

کوئی چاہت ہی رہی اور نہ سودا سر میں
ایک مقروض کی مانند پڑے ہیں گھر میں


جیسے پانی سے کوئی پھول کو تازہ رکھے
ہم نے کچھ درد چھپا رکھے ہیں چشم تر میں


اب رہائی بھی ملے گی تو سزا ہی ہوگی
نہیں پرواز کی قوت مرے بال و پر میں


خیر ہو خیر تو اب خار سا کھٹکے سب کو
غم تو یہ ہے کہ سکوں بھی نہیں ملتا شر میں


اس قدر ہو گیا مشہور یہ آسیب زدہ
کوئی رہتا نہیں اب آ کے ہمارے گھر میں


ہم تھے نادان لٹے دوست کے ہاتھوں جوہرؔ
کیسے پیٹیں یہ ڈھنڈورا بھی زمانے بھر میں