مالی کو سازشوں پہ یوں اکسا دیا گیا
مالی کو سازشوں پہ یوں اکسا دیا گیا
کلیاں بنیں نہ پھول یہ سمجھا دیا گیا
سچ بولنے کی جس نے جسارت کی دوستو
پھانسی پہ ایک دن اسے لٹکا دیا گیا
منزل مرے نصیب میں لکھ دی گئی مگر
پر پیچ راستہ مجھے دکھلا دیا گیا
خود کو سمجھ رہے ہیں وہی لوگ ہوشیار
جن کو خرد کی راہ سے بھٹکا دیا گیا
پھر میکدے میں ٹوٹ گئی توبہ شیخ کی
جب مفت میں شراب کا پیالا دیا گیا
باپو نے جو دیا تھا سبق یاد ہے ہمیں
پھر زہر کیوں سماج میں پھیلا دیا گیا
مہنگائی فیضؔ چھونے لگی ہے اب آسمان
دلی کے تخت پر کسے بیٹھا دیا گیا