کس نے یہ سوچا تھا حیدرؔ ایسا بھی ہو سکتا ہے

کس نے یہ سوچا تھا حیدرؔ ایسا بھی ہو سکتا ہے
جس کو پیار سمجھ بیٹھے وہ دھوکا بھی ہو سکتا ہے


غیروں کے ہاتھوں میں خنجر ڈھونڈ رہے ہو آخر کیوں
جس نے کیا برباد ہمیں وہ اپنا بھی ہو سکتا ہے


سانسیں لینا بس ہو علامت جینے کی لازم تو نہیں
دل کے اندر جھانک کے دیکھو مردہ بھی ہو سکتا ہے


سارے جہاں میں بات محبت کی جو کرتا پھرتا ہے
اس کے گھر نفرت کا اندھیرا پھیلا بھی ہو سکتا ہے


تیری محفل تیرے بندے ہو جتنا بھی شور مگر
ہم محفل میں آئیں تو سناٹا بھی ہو سکتا ہے


پھر سے کسی کو دل میں بساؤں پھر سے کسی کے درد سہوں
یہ دل کا آنگن ہے سونا سونا بھی ہو سکتا ہے


آگ لگانے سے پہلے اے کاش وہ اتنا سوچ بھی لے
یہ جو جلا ہے یہ میرا سرمایہ بھی ہو سکتا ہے


حیدرؔ سارا حال میں اپنا کیسے غزل میں لکھ ڈالوں
فکر مجھے بس یہ ہے کوئی رسوا بھی ہو سکتا ہے