بہا کے بیٹھے ہیں اشکوں کا اک سمندر ہم

بہا کے بیٹھے ہیں اشکوں کا اک سمندر ہم
پھر آ گئے ہیں ترے گاؤں سے گزر کر ہم


کسی کی آرزو ہم تھے جو نہ ہوئی پوری
کسی کو ہو گئے بن کچھ کیے میسر ہم


تمہارے دل میں ہی رہتے تھے ہم تو مدت سے
کسے بتائیں کہ اب ہو گئے ہیں بے گھر ہم


اسی لیے تو گرفتار ہیں مسائل میں
سمجھنے خود کو لگے دوسروں سے بہتر ہم


فضول آپ بھی کوشش نہ کیجئے صاحب
نہ آ سکیں گے کبھی قید غم سے باہر ہم


نہ کچھ وہ میرے بنا ہے نہ کچھ میں ان کے بنا
اگر وہ میرے صنم ہیں تو ان کے آذر ہم


یہ اور بات کہ عرصہ ہوا بچھڑ کے مگر
نہ اب تلک بھی انہیں بھول پائے حیدرؔ ہم