احوال مرا پوچھنے آتے بھی نہیں ہیں

احوال مرا پوچھنے آتے بھی نہیں ہیں
کس حال میں خود ہیں یہ بتاتے بھی نہیں ہیں


ویسے تو بساتے ہی نہیں دل میں کسی کو
پر جس کو بسایا ہے بھلاتے بھی نہیں ہیں


ہم ملتے نہیں ان سے یہ ان کو ہے شکایت
اور خود وہ محبت سے بلاتے بھی نہیں ہیں


چاہے نہ بلانا تو نہ بلوائے وہ لیکن
یوں خود سے مگر دور بھگاتے بھی نہیں ہیں


دل سے میں کیا کرتا ہوں ان لوگوں کی عزت
جو نیکیاں کرتے ہیں جتاتے بھی نہیں ہے


ان کو بھی سدا مجھ سے محبت کا ہے دعویٰ
ہونٹوں پہ مرا نام جو لاتے بھی نہیں ہیں


جن طور طریقوں کو وفا کہتے ہیں اب لوگ
وہ طور طریقے ہمیں آتے بھی نہیں ہیں


بس درد کے تنہائی کے اشکوں سے سوا اب
عاشق یہاں کچھ اور تو پاتے بھی نہیں ہیں


جس طرح کے احباب خدا نے دئے حیدرؔ
ایسے مرے رشتے مرے ناطے بھی نہیں ہیں