اب ان پہ میری آہ کا ہوگا اثر کہاں

اب ان پہ میری آہ کا ہوگا اثر کہاں
کیا حال ہے مرا انہیں اس کی خبر کہاں


اب ان کے دل میں ہم سے فقیروں کا گھر کہاں
بس دیکھیے کے پھرتے ہیں ہم در بدر کہاں


اک مشکلوں کی دھوپ سے میرا ہے سامنا
آسانیوں کا راہ میں کوئی شجر کہاں


مدت ہوئی کے عید میسر نہیں ہمیں
آیا ہے چاند ہم کو ہمارا نظر کہاں


بس اے طبیب نسخۂ دیدار لکھ مجھے
ان مرہموں سے بھرتا ہے زخم جگر کہاں


ہر آن نفرتوں کا ہے پہرا گلی گلی
اب ہم کریں تلاش محبت نگر کہاں


ہر موڑ پر ہے ایک مصیبت سے سامنا
اب جانے ختم ہوگا مرا یہ سفر کہاں


تاریک ہو چکی یہاں حیدرؔ کی زندگی
اس کو نصیب عشق کے شمس و قمر کہاں