کن خیالوں میں تو دلبر پڑا ہے

کن خیالوں میں تو دلبر پڑا ہے
ایک سے ایک یہاں پر پڑا ہے


میں وہ درویش ہوں جس کا زمانے
سطح افلاک پہ بستر پڑا ہے


آسماں کی یہ بلندی نہیں کچھ
آسماں تو مرے سر پر پڑا ہے


ایک ناداں سے صنم کی گلی میں
ایک استاد ہنر ور پڑا ہے


میرؔ کہتے تھے جسے سنگ گراں
میرے دل پر وہی پتھر پڑا ہے


دھوپ میں خوار پھروں میں مرا دل
زلف کے سائے میں خوشتر پڑا ہے


میرے اشکوں میں مرے شعر ہیں تر
سارا خطہ زمیں کا تر پڑا ہے


یوں ہی حاویؔ میں اگلتا نہیں در
میرے قدموں میں سمندر پڑا ہے