خواہش کرکے غم کو مخاطب کون کرے

خواہش کرکے غم کو مخاطب کون کرے
اپنا سفر صحرا کی جانب کون کرے


زرد ہوئے ہیں پیڑ کے پتے ساون میں
اب موسم کا بھروسا صاحب کون کرے


خون سے اپنے شمعیں جلاتا ہوں لیکن
دن کے جیسا رات کا قالب کون کرے


رتبہ دینا شان کریمی کا ہے کام
مٹی کے پتلے کو ثاقب کون کرے


اندھی نگری کے قانون نرالے ہیں
فیصلہ میرے جرم کا واجب کون کرے


زہر تعصب خون میں سب کے شامل ہے
اس موسم میں بات مناسب کون کرے


میری غزل کی قیمت کیا ہے دنیا میں
لہو لہو انگلی کو کاتب کون کرے


سورج پیڑ سمندر سائے حقیقت ہیں
صبح کو آتشؔ صبح کاذب کون کرے