کام ہے ان کا جفا وہ با وفا کہنے کو ہیں

کام ہے ان کا جفا وہ با وفا کہنے کو ہیں
دیتے ہیں جو درد دل اہل شفا کہنے کو ہیں


ہم تو سمجھے تھے وہ ساحل پر اتاریں گے ہمیں
ڈال دی ناؤ بھنور میں نا خدا کہنے کو ہیں


فاصلوں سے کم نہ ہوں گے روح کے رشتے کبھی
وہ ہمیشہ دل میں ہیں دل سے جدا کہنے کو ہیں


منفرد ان کی محبت منفرد ان کی وفا
دوریاں رکھتے ہیں پھر بھی ہم نوا کہنے کو ہیں


ان کی اک ابرو کی جنبش بھی سخن ور ہے بہت
ہے زباں بھی ان کے منہ میں مدعا کہنے کو ہیں


دوسروں کو راستہ دکھلائیں گے وہ کس طرح
راہ گم کردہ ہیں خود اور رہنما کہنے کو ہیں


ہو گئی ہے آگہی ان سے صبیحہؔ اس قدر
جان لیتی ہوں میں اتنا اب وہ کیا کہنے کو ہیں