بے سبب ہم سے وہ بیزار نظر آتے ہیں
بے سبب ہم سے وہ بیزار نظر آتے ہیں
دکھ کے ہر چار سو انبار نظر آتے ہیں
کل تلک جن کو تھی ہم سے نسبت ہمدم
آج غیروں کے طلب گار نظر آتے ہیں
جب بھی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھوں
عظمت رفتہ کے مینار نظر آتے ہیں
کس کو فرصت ہے یہاں دوسروں کے غم بانٹے
لوگ خوشیوں کے خریدار نظر آتے ہیں
گرد میں کارواں کی آج مجھے مبہم سے
دور منزل کے کچھ آثار نظر آتے ہیں
خیر کی جن سے کسی کو نہ تھی کوئی امید
وہ بھی اب مائل ایثار نظر آتے ہیں
آخرش گزری صبیحہؔ یہ اندھیری شب بھی
خیر سے صبح کے آثار نظر آتے ہیں