خوں رنگ ہوئی شام شفق سے بھی زیادہ
خوں رنگ ہوئی شام شفق سے بھی زیادہ
دل ڈوب گیا دور افق سے بھی زیادہ
لڑکی وہ ہوئی جاتی ہے زخموں کی دھنک سی
سادہ جو رہی سادہ ورق سے بھی زیادہ
بچپن کے کھلونے کی طرح مجھ کو بھلا دو
میں یاد رکھوں تم کو سبق سے بھی زیادہ
کیا دیکھ لیا خواب نے آئینۂ تعبیر
دل ہو گیا فق چہرۂ فق سے بھی زیادہ
پنہاںؔ یہاں دولت ہو کہ طاقت ہو کہ شہرت
مطلوب طلب گاروں کو حق سے بھی زیادہ