خیال و فکر کے پر میں اڑان باندھ کے چل
خیال و فکر کے پر میں اڑان باندھ کے چل
سخن کے پاؤں میں تو آسمانوں باندھ کے چل
غزل کی بزم میں شرکت جو کرنی ہے تجھ کو
اک ایک شعر میں فن کی زبان باندھ کے چل
نہ جانے کب اسے طوفاں کا سامنا ہو جائے
پرانی ناؤ میں تو بادبان باندھ کے چل
سلگتی دھوپ میں وہ سر کے کام آئے گا
سفر میں حوصلے کا سائبان باندھ کے چل
غریب شہر کی بستی میں تجھ کو چلنا ہے
رگ خودی میں سخاوت کی شان باندھ کے چل
سبھی یہ پوچھیں گے پتھر نے کیا دیا ہے تجھے
جبیں پہ زخم کا گہرا نشان باندھ کے چل
غزل کی بزم میں اک ساز بھی ضروری ہے
قمرؔ زبان میں نغموں کی تان باندھ کے چل