خبر کہاں تھی مرے علم اکتسابی کو

خبر کہاں تھی مرے علم اکتسابی کو
کتاب دل ہے بہت حق کی بازیابی کو


وہ ضبط شوق جو بنیاد ضبط مے خانہ
اسی کا ہوش نہ ساقی کو نہ شرابی کو


ابھی کہاں ہے مرے زخم دل کی وہ رنگت
گلاب دیکھ کے جل جائے جس گلابی کو


خدا کے سامنے انسان کی طرف داری
عزیز رکھتا ہے دل اپنی اس خرابی کو


غزل کو ڈر ہے کہ زندہ نہ دفن ہو پنہاںؔ
سزا ملے نہ صداقت کی بے حجابی کو