خار ہی خار دے گلاب نہ دے
خار ہی خار دے گلاب نہ دے
زندگی تو مجھے سراب نہ دے
تیرے چہرے کا جس میں عکس نہ ہو
مجھ کو ایسی کوئی کتاب نہ دے
اب تو بستر کو نیند آ جائے
اب تو تکیے کو اضطراب نہ دے
اپنا ماضی بڑا بھیانک ہے
شیشہ گر آئنے پہ آب نہ دے
بند کر لے جو اپنی مٹھی میں
ایسے ہاتھوں میں آفتاب نہ دے
اپنے شہزادؔ کو حیات کا غم
دے مگر اتنا بے حساب نہ دے