خاک نے اپنا تسلط تھا جمایا جس دم
خاک نے اپنا تسلط تھا جمایا جس دم
میں نے افلاک کو سوچوں سے اٹھایا جس دم
میرے اطراف بھی کہرام کا بادل برسا
میں نے اک شخص کو کچھ دیر ہی سوچا جس دم
رابطہ ٹوٹ کے حیرانی تلک آ پہنچا
ایک اپنا مرا اغیار میں بیٹھا جس دم
وقت تو آن ہی پہنچا تھا ترے وصل کا بھی
سلسلہ سانس کا اس روح سے ٹوٹا جس دم
میری آواز مرے پاس پلٹ آئی تھی
میں نے تنہائی میں اپنوں کو پکارا جس دم
رو پڑا پیڑ کسی درد کی لے کو لے کر
اک پرندے نے ہری شاخ کو نوچا جس دم
دل مرا کوستا رہتا ہے اسی پل کو ہماؔ
ایک پتھر سے بنے بت کو تھا پوجا جس دم