رہتے ہیں انتشار میں سائے ادھر ادھر
رہتے ہیں انتشار میں سائے ادھر ادھر امکان عشق سب ہی گنوائے ادھر ادھر میں دشت بے گیاہ میں بھیجی گئی مگر کرتی پھروں میں دشت میں ہائے ادھر ادھر اہل زبان گم رہے تسبیح میں مری رکھوں میں جان شوق چھپائے ادھر ادھر صحرا کو پیاس سونپ کے دریا سمٹ گیا ابر سیاہ دور ہی چھائے ادھر ادھر وہ ...