جوش جنوں کو کوئی بھی پیمانہ چاہیے

جوش جنوں کو کوئی بھی پیمانہ چاہیے
پانی کو اب تو سر سے گزر جانا چاہیے


میرے علاوہ کون ہے اس کا کوئی نہیں
لاش خیال یار کو کفنانا چاہیے


مانوسیت نے گھر کی فضا کو بدل دیا
دیوار و در کو میں نہیں بیگانہ چاہیے


ممکن ہے عمر بھر کی تھکن نذر لہر ہو
ساحل کی ریت پر مجھے سستانا چاہیے


کل ہو نہ ہو وہ آئے نہ آئے سو آج ہی
پہلو میں خوش جمال کے مر جانا چاہیے


بیمار جب سپرد خدا کر دیا تو پھر
اب کس لیے دعاؤں کا نذرانہ چاہیے


میں ہاتھ مل رہی ہوں ہماؔ اس سے روٹھ کر
دل میں سہی اسے بھی تو پچھتانا چاہیے