کراں کراں نظر میں میری ہر طرف سحاب تھا

کراں کراں نظر میں میری ہر طرف سحاب تھا
زمیں رہی یہ تشنہ لب کہیں مگر نہ آب تھا


بدل چکے ہیں سب مرے دل و نظر کے زاویے
نظر پڑی تھی اس کی اک عجیب انقلاب تھا


کہ نقش دل پہ ہو گئی ہے قربتوں کی داستاں
مہک رہی ہے یاسمیں کھلا ہوا گلاب تھا


شدید ابر و باد تھی وہ ذہن و دل کے درمیاں
بدن زمین غرق تھی لہو میں اضطراب تھا


نظر کے قیل و قال میں یہ فلسفے کی بات کیا
میں سر بہ سر سوال تھا سراپا وہ جواب تھا


کہ گرگ میں بدل گئے وہ جتنے میرے یار تھے
شغال جاں نثار تھے عجیب میرا خواب تھا


یہ زندگی ندیمؔ جی تضاد کی ہے داستاں
کہ مطمح اس کا اور تھا جو میرا انتخاب تھا