کلیوں کو میرے پھول مرے آشیان کو

کلیوں کو میرے پھول مرے آشیان کو
تاڑا ہے صاعقوں نے مرے گلستان کو


اک خانۂ خدا تجھے سونپا تھا اے صنم
کرتا ہے کون ترک پھر ایسے مکان کو


طوبیٰ قدان شہر کراچی نے سربسر
سر پر اٹھا کے رکھا ہے اس آسمان کو


پیر فلک ہے سینے میں پتھر ترا کہ دل
کل خاک میں ملا دیا کیسے جوان کو


جنت دکھا دی شیخ کو ساقی نے جیتے جی
حضرت سلام کر گئے پیر مغان کو


جھوٹی سہی ملی ہے محبت مجھے ضرور
آباد رکھے حق مرے ان دوستان کو


کیا کیا زبانوں کو لیے دامن میں بیٹھی ہے
یارب عطا ہوں وسعتیں اردو زبان کو